How to Make Peace. صلح کیسے کرائیں؟

جب دو بھائی آپس میں لڑ جائیں یا ناراض ہوجائیں تو کیسے صلح کرائیں؟

تحریر: سعید اللہ خان

القرآن:  اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا(یعنی تمھارا رعب ختم ہوجائے گا) اور صبر سے کام لو۔ کہ اللہ صبر(یعنی جم کر مقابلہ) کرنے والوں کا مددگار ہے
(سورہ انفال آیت 46)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں فوراً صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم (یعنی قرآن)کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو دونوں فریق(بھائیوں) میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لینا۔ کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے ۔
(کیونکہ) مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں فوراً صلح کرادیا کرو۔ اور اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
(سورہ ججرات آیت 10,9)

اختلاف یا جھگڑا ہوجانا ایک فطری عمل ہے گھر کے دو افراد میں۔ خاندان یا کسی جماعت کے دو فریق میں کسی فیصلے یا بات پر ناراضگی یا نا اتفاقی یا لڑائی ہوجانا مسئلہ کی بات نہیں ہاں لمحہ فکر ضرور ہے مگر مسئلہ اور پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ جب گھر کے دو فرد آپس میں لڑجاتے ہیں تو گھر کے سربراہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فوراً (فوراً کا مطلب ہے بہت ہی جلد) دونوں فریق یا افراد میں صلح کرائے کیونکہ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے کہ فوراً(مطلب جلد) صلح کرادو۔کیونکہ جب معاملہ فوراً حل نہ کیا جائے اور معاملے کو طول دیا جائے تو بد گمانیاں بڑھتی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں دلوں میں بغض و حسد و عداوت اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور فریقین کو ایک دوسرے کی اچھی باتیں بھی بری لگتی ہیں اور نفرت بڑھ جاتی ہے اور نتیجہ دو بھائی دو فریق ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں اور اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے(یعنی اجتماعیت غیر مستحکم ہوجاتی ہے)۔

 اسی لیے ربِ کریم نے فرمایا کہ جب تمہیں پتہ چلے کہ دو بھائی آپس میں لڑ گئے ہیں یا ناراض ہوگئے ہیں اور دونوں قرآن کی طرف رجوع نہیں لا رہے ہیں تو تم (یعنی رہبر یا سربراہ) فوراً انکے درمیان صلح کرواکر معاملے کو جلد مستقل حل کروادو۔  لیکن اگر ایک فریق راضی ہوجائے اور دوسرا نہ ہو اور ذیادتی کرے اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے اور ڈھٹائی دکھائے تو یہ رہبر (سربراہ یا مثالحتی شخص) کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے فریق کو قائل کرے اور اسکی غلطی کا احساس دلائے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے اسے جانا چاہیے۔ لیکن اس درمیان پہلا فریق اپنی حد میں رہے نیک نیتی کے سات منتظر رہے اپنے بھائی کی آمد کا اور کسی بھی قسم کی بیان بازی و غیراخلاقی سرگرمیوں سے گریز کرتا رہے(کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے)۔

جب دوسرا فریق اپنی ذیادتی یا ڈھٹائی سے باز آجائے اور صلح کی طرف مائل ہوجائے تو رہبر/سربراہ یا مثالحتی شخص کو یہ حکم ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ دونوں فریق میں صلح کرادے۔ 
اور اجتماعیت کو پھر سے مستحکم کردے کیونکہ مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو یہی رویہ قرآن کے ماننے والوں سے مطلوب ہے کہ وہ
'' أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم '' کی اتباع میں نظم قائم کریں اور اپنے درمیان
'' وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُم ْ'' 
کے مطابق نظم کی اتباع کریں تو جب ہی '' رُحَمَاءُ بَيْنَهُم'' کی فضاء اپنے معاشرے میں پیدا کر سکیں گے اور تب یہ کہلائیں گے '' حِزْبَ اللَّهِ ''(اللہ کی جماعت)  یعنی اللہ کے مطلوب باکردار انسان۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے